چکن گنیا (Chikungunya) کیا ہے؟ یہ کیسے ہوتا ہے؟ مزید احتیاطی تدابیر

چکن گنیا ایک وائرل بیماری ہے جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری کے باعث شدید بخار، جوڑوں میں درد اور دیگر پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ آئیے تفصیل سے جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے، کیسے پھیلتا ہے، اور اس سے بچاؤ کے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

چکن گنیا کیا ہے؟

چکن گنیا ایک وائرل انفیکشن ہے جو الفا وائرس (Alphavirus) کی ایک قسم چکن گنیا وائرس (Chikungunya Virus) کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر ایڈیز ایجپٹائی (Aedes aegypti) اور ایڈیز البوپکٹس (Aedes albopictus) نامی مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے، جو ڈینگی اور زیکا وائرس بھی منتقل کرتے ہیں۔

چکن گنیا کی تاریخ

یہ بیماری پہلی بار 1952 میں تنزانیہ اور یوگنڈا میں دریافت ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ کئی ممالک میں پھیلی، خاص طور پر ایشیاء، افریقہ اور امریکہ کے کچھ حصوں میں اس کے کیسز رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔

چکن گنیا کیسے پھیلتا ہے؟

یہ بیماری عام طور پر اس وقت پھیلتی ہے جب کوئی مچھر کسی متاثرہ شخص کا خون چوستا ہے اور پھر کسی صحت مند شخص کو کاٹتا ہے۔ وائرس مچھر کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اور متاثرہ فرد میں علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

چکن گنیا کے پھیلاؤ کے عوامل

  • ایسے علاقے جہاں پانی کھڑا رہتا ہے، کیونکہ وہاں مچھروں کی افزائش زیادہ ہوتی ہے۔
  • زیادہ درجہ حرارت اور گرم و مرطوب موسم مچھروں کے لیے سازگار ہوتا ہے۔
  • گنجان آباد علاقے جہاں صفائی کا ناقص انتظام ہو۔
  • ایسے لوگ جو متاثرہ علاقوں میں سفر کرتے ہیں، وہ وائرس لے کر دوسرے علاقوں میں پہنچ سکتے ہیں۔

چکن گنیا کی علامات

چکن گنیا کی علامات عام طور پر وائرس کے داخل ہونے کے 4 سے 7 دن بعد ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:

  • تیز بخار (102 سے 104 ڈگری فارن ہائیٹ)
  • شدید جوڑوں کا درد (خاص طور پر کلائی، گھٹنے، کہنی اور انگلیوں میں)
  • پٹھوں میں درد اور کمزوری
  • جلد پر خارش یا سرخ دھبے
  • آنکھوں میں درد اور سوجن
  • سردرد اور متلی

چکن گنیا اور ڈینگی میں فرق

چکن گنیا اور ڈینگی کی علامات کافی حد تک ملتی جلتی ہیں، لیکن ایک بڑا فرق جوڑوں کے درد کی شدت ہے۔ چکن گنیا میں جوڑوں کا درد زیادہ شدید اور طویل ہوتا ہے، جبکہ ڈینگی میں پلیٹ لیٹس کم ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

چکن گنیا کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟

چکن گنیا کی تصدیق کے لیے درج ذیل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں:

  1. چکن گنیا وائرس اینٹی باڈی ٹیسٹ
  2. پی سی آر (PCR) ٹیسٹ جو وائرس کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے
  3. خون کے دیگر ٹیسٹ تاکہ ڈینگی یا کسی اور بیماری کے امکانات کو مسترد کیا جا سکے

چکن گنیا کا علاج

چکن گنیا کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک وائرل انفیکشن ہے اور اینٹی بائیوٹکس اس پر اثر نہیں کرتیں۔ تاہم، علامات کو کم کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

  • پین کلرز اور اینٹی انفلیمیٹری دوائیں جو بخار اور درد کو کم کرتی ہیں
  • زیادہ پانی پینا تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو
  • آرام کرنا تاکہ جسم خود کو بحال کر سکے
  • متوازن غذا لینا تاکہ قوت مدافعت مضبوط ہو

چکن گنیا سے بچاؤ کے طریقے

چونکہ اس بیماری کا کوئی خاص علاج موجود نہیں، اس لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہی سب سے بہترین حل ہے۔

مچھروں سے بچاؤ کے اقدامات

  • اپنے گھر اور اردگرد کھڑے پانی کو ختم کریں تاکہ مچھروں کی افزائش نہ ہو۔
  • مچھر دانی کا استعمال کریں، خاص طور پر سوتے وقت۔
  • مچھر بھگانے والی کریمیں اور اسپرے استعمال کریں۔
  • کھڑکیوں اور دروازوں پر جالی لگائیں تاکہ مچھر اندر نہ آ سکیں۔
  • ہلکے رنگ کے اور پوری آستین والے کپڑے پہنیں تاکہ مچھر جلد پر نہ بیٹھ سکیں۔

مدافعتی نظام کو مضبوط بنائیں

  • وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور غذائیں کھائیں۔
  • جسم کو ہائیڈریٹ رکھیں اور تازہ پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔
  • ورزش اور صحت مند طرز زندگی اپنائیں تاکہ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت مضبوط ہو۔

چکن گنیا کب خطرناک ہو سکتا ہے؟

زیادہ تر مریض ایک سے دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن بعض افراد کے لیے یہ بیماری زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، جیسے:

  • بوڑھے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو
  • حاملہ خواتین کیونکہ یہ بیماری ماں سے بچے میں منتقل ہو سکتی ہے
  • دل، شوگر یا گردوں کے مریض جن میں پہلے ہی پیچیدگیاں موجود ہوں

نتیجہ

چکن گنیا ایک تکلیف دہ مگر قابلِ کنٹرول بیماری ہے۔ اگر ہم مچھروں سے بچاؤ کے اقدامات کریں اور اپنے ماحول کو صاف رکھیں، تو اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو بخار اور جوڑوں میں شدید درد محسوس ہو، تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور خود سے کوئی دوا استعمال نہ کریں۔ احتیاط، بہتر علاج ہے!

میں سلیم جھمٹ، ایک پیشہ ور اردو مصنف ہوں۔ مجھے ڈی جی پی آر، حکومت پنجاب کی جانب سے تسلیم شدہ صحافی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے علاوہ، میں وزارت انسانی حقوق، حکومت پاکستان کا سرٹیفائیڈ ڈیفینڈر بھی ہوں۔

Leave a Comment